گوئتھے (Goethe)گھنٹوں خاموش بیٹھاخودکلامی میں مصروف رہتا،وہ تصورمیں اپنے وست کو کرسی پر بیٹھے دیکھتا اور اس کا جواب بھی وصول کرتاتھا 

Share


 گوئتھے (Goethe)گھنٹوں خاموش بیٹھاخودکلامی میں مصروف رہتا،وہ تصورمیں اپنے وست …

 مصنف: ڈاکٹر جوزف مرفی
مترجم: ریاض محمود انجم
قسط:96
گوئتھے (Goethe) کی سوانح عمری لکھنے والے افراد بتاتے ہیں کہ وہ گھنٹوں خاموش بیٹھا تصوراتی اور تخیلاتی خودکلامی میں مصروف رہتا تھا۔ اس کی اس عادت کا بھی سب کوبخوبی علم ہے کہ وہ تصور اور تخیل میں اپنے ایک دوست کو اپنے سامنے کرسی پر بیٹھے دیکھتا اور نہایت صحیح طریقے کے ذریعے اس کا جواب بھی وصول کرتا۔ دوسرے الفاظ میں اگروہ کسی مسئلے کے متعلق پریشانی یا فکر میں مبتلا ہوتا تو وہ تصوراتی اور تخیلاتی نگاہوں سے یہ دیکھتا کہ اس کا دوست اس کے سامنے کرسی پر بیٹھا اس مسئلے کا بالکل صحیح حل بتا رہا ہے۔ اس تخیلاتی منظر میں وہ اپنی جسمانی حرکات، لب و لہجے، آواز کے اتار چڑھاؤ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ حقیقت کا رنگ بھر دیتا۔
میرے اس لیکچر کے دوران ایسا نوجوان شخص بھی موجود تھا جو حصص کا کاروبار کرتا تھا۔ اس نے اپنے پیشے میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر گوئتھے (Goethe) کی آزمائی ہوئی ترکیب اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی نے اپنے ایک کروڑپتی بینکار دوست کے ساتھ ایک ذہنی اور تخیلاتی گفتگو کا آغاز کر دیا۔ یہ دوست اکثر اسے حصص کی کامیاب اور صحیح خرید وفروخت کے ضمن میں مبارکباد دیا کرتا تھا اور اس کی عقلمندی اور معاملہ فہمی کابھی قائل تھا اور اسے تعریف وستائش سے نوازتا رہتا تھا۔ اس نوجوان شخص نے اداکاری کے ذریعے اس گفتگو کو اس قدر دہرایا کہ یہ گفتگو نفسیاتی طور پر اس کے ذہن میں ایک اعتقاد اور یقین کی مانند نقش ہوگئی۔
حصص کا کاروبار کرنے والے اس نوجوان شخص کے ذہن میں پرورش پانے والی تمام گفتگو اور اس کے تخیل و تصور نے یقینی طور پر اس شخص کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگی و مطابقت پیدا کر لی جو اپنے گاہکوں کیلئے بھاری اور مفید سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا۔ اس کی زندگی کا اہم اور واحد مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے گاہکوں کیلئے مالی منفعت مہیا کرے اور اپنی فہم و فراست کے ذریعے ان کیلئے مالی مفاد اور فوائد مہیا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ شخص اپنے کاروباری معاملات میں ابھی تک اپنے تحت الشعوری ذہن کو استعمال کر رہا ہے اور اس نے اپنے پیشے میں شاندار کامیابی حاصل کرلی ہے۔
16سالہ لڑکے کی ناکامی، کامیابی میں تبدیل ہو گئی:
ہائی سکول کے ایک نوجوان طالبعلم نے مجھ سے کہا: ”میری تعلیمی حالت بہت کمزو رہوتی جا رہی ہے، میری یادداشت بھی گم ہوتی جا رہی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔“ مجھے یہ معلوم ہواکہ اس لڑکے کی ناکامی کی اصل اور واحد وجہ اس کا اپنے اساتذہ اور ہم جماعتوں کے ساتھ معاندانہ رویہ ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ اپنے تحت الشعوری ذہن کو کس طرح استعمال کیا جائے او راپنی پڑھائی میں کس طرح کامیابی حاصل کی جائے۔
میرے مشورے کے مطابق دن میں کئی دفعہ، بالخصوص رات کو سونے سے قبل اور صبح جاگنے کے بعد اس نے کچھ حقائق اور سچا ئیوں کو مثبت سوچ کے ذریعے دہرانا شروع کر دیا۔ یہ وہ بہترین اوقات ہیں جب آپ اپنے تحت الشعوری ذہن میں خیالات و تصورات نقش اور کندہ کر سکتے ہیں۔ 
اس لڑکے نے مثبت سوچ کے ذریعے مندرجہ ذیل بیانات دہرانے کا سلسلہ جاری رکھا:
”مجھے معلوم ہے کہ میرا تحت الشعوری ذہن، یادداشت کا ایک ذخیرہ اور خزانہ ہے۔ جو کچھ بھی پڑھتا ہوں یا اپنے اساتذہ سے سنتا ہوں، وہ یادداشت کے اس ذخیرے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ میری یادداشت بہت اچھی اور بہترین ہے اور میرے تحت الشعوری ذہن میں موجود لامحدود تخلیقی قوت و صلاحیت مجھے وہ سب چیزیں بتا دیتی ہے جو میرے تحریری یا زبانی امتحان کیلئے ضروری ہیں۔ میری ذات میں سے اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کیلئے محبت و چاہت کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ میں نہایت صدق دل سے ان کی کامیابی اور بھلائی چاہتا ہوں۔
یہ نوجوان لڑکا اب اپنی تعلیم میں پہلے سے کہیں بہتر ہے اب وہ اپنے تمام امتحانات میں ”اے“ گریڈ حاصل کر رہاہے۔ وہ شعوری طور پر یہ تصور کرتا ہے کہ اس کے اساتذہ اور اس کی والدہ اس کی تعلیمی کامیابی پر اسے مبارکباد دے رہے ہیں۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)



You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *