مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:183
”تازہ پانی کی جھیل ”منچھر“ سیہون سے اٹھارہ (18)کلو میٹر دور میرے مغربی کنارے پر جامشورو اور دادو اضلاع میں واقع ہے جبکہ حیدرآباد کا فاصلہ یہاں سے اسی (80) میل ایک سو بیس (120) کلو میٹر ہے۔منچھر جھیل میں پانی ”کھیرتر پہاڑی سلسلہ“ کی مختلف ندیوں سے آتا مجھ تک پہنچتا ہے۔ یہ پاکستان کی ہی نہیں بلکہ ایشیا ء کی تازہ پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے اور اس کا شمار دنیا کی قدیم ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہ جھیل کب وجود میں آئی کچھ معلوم نہیں۔ کہتے ہیں یہ جھیل موئن جو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ شاید پتھر کے زمانے میں بھی اس کا وجود تھا۔ یہ جھیل موسم کے اعتبار سے چھتیس (36)سے دوسو پچاس (250) مربع کلو میٹر رقبہ میں پھیل جاتی ہے۔ اس جھیل کے کنارے اور گردو نواح میں قدیم بستیاں ’”غازی شاہ، واہی، پانڈی علی، ٹیلہ مراد“ وغیرہ شامل ہیں۔ کہتے ہیں 1958ء میں قحط سالی کے دوران یہ جھیل سوکھ ہی گئی تھی۔ جب اس کی کیفیت سیلابی ہوتی ہے تو یہ جھیل اپنے ہی پانی میں ڈوب جاتی ہے اور جب سیلابی کیفیت ختم ہوتی ہے تو جھیل پھر سے اپنی پہچان دینے لگتی ہے۔ اس جھیل سے ہزاروں لوگوں کی قسمت اور روزگار وابستہ ہے۔ کئی سو خاندان کشتی کے گھروں میں اس میں رہتے ہیں۔ یہ ’مونا“ قبیلہ’ہے۔ اس قبیلے کے افراد ”مونے“ کہلاتے ہیں۔ ان کی تمام تکالیف اور خوشیاں اسی جھیل سے جڑی ہیں۔ اس جھیل میں مختلف اقسام کی مچھلی پائی جاتی ہے۔ مچھیرے ہر سال لاکھوں من مچھلی اپنے جال کی زینت بناتے ہیں اور اس کی فروخت سے کروڑوں روپے کماتے ہیں۔سردیوں میں اس دلکش جھیل کے پانیوں پر ہزاروں کی تعداد میں مہمان پرندے اترتے ہیں تو یوں لگتا ہے رنگوں کی برسات اس جھیل پر اتری ہو۔ ان پرندوں میں ہنس، ہنس راج، جل مرغی، نیل سر، ڈگوش، کنگھا، گنگ مرغیاں، مختلف اقسام کی بطخیں اور مرغابیاں وغیرہ شامل ہیں۔ خشک سالی کے دوران اس کے گرد و نواح میں گندم، جوار، سرسوں وغیرہ کی فصل بھی کاشت ہوتی ہے۔“ سندھو یہ بتا کر خاموش ہو ا اور پھر اگلے ہی لمحے دوبارہ بول پڑا ہے۔”دوست! تمھیں مونا قبیلے کے بارے تو کچھ بتایا ہی نہیں ہے۔سنو!صبح صبح منچھر جھیل پر سورج کی شوعیں قدرت کے رنگ بکھیر تی ہیں تو اڑھائی سو(250) مربع کلو میٹر میں پھیلی جھیل کے اطراف ملاحوں کی رنگ برنگی کشتیاں اوران کے مکین منفرد رنگ پیش کرتے ہیں۔ کشتیوں کے یہ رنگ اس جھیل کے ”کشتی گاؤں“(boat village) کے ہیں جس میں مونے آباد ہیں۔ تازہ پانی کی سب سے بڑی منچھر جھیل میں موجود آبی حیات ان مونوں کو صدیوں سے خوراک اور روزگار مہیا کر تی رہی ہے۔ وقت اور حالات نے50ہزار نفوس پر مشتمل اس گاؤں کی آبادی گھٹا ہو کر اب صرف چار ہزار (4000) نفوس تک محدود کر دی ہے۔مونوں کی اکثریت یہاں سے غازی گھاٹ اور تونسہ بیراج کو ہجرت کر گئی ہے۔ اس ہجرت کے بڑی وجہ پانی اور آبی حیات میں کمی ہے اور یہ سب کچھ پچھلی 3 دہائیوں میں ہی ہوا ہے۔“
میرے سامنے ایک نوجوان مونا اپنی کشتی سے جھیل کے درمیان موجود اپنے خاندان کے دیگر افراد کے پاس جا رہا ہے۔ اسے وہاں تک پہنچنے میں تقریباً 20 منٹ لگیں ہیں۔ یہ دل فریب منظر ہے۔مجھے اشرف مونے نے بتایا؛”یہ دو سو سال (200) پرانا گاؤں ہے۔ کبھی یہاں چار پانچ سو کشتی گھر تھے اب صرف پچاس(50) ہی رہ گئے ہیں۔ اکثریت تونسہ یا غازی گھاٹ منتقل ہو چکی ہے۔ کچھ خشکی پر بھی آباد ہو ئے ہیں۔کبھی یہ جھیل کشتیوں کی بہتات سے دلکش نظارہ پیش کرتی تھی اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ وقت اور زمانے نے جھیل سے آبی حیات کم کر دی ہے رہی سہی کسر گندے پانی کی ملاوٹ نے پوری کرکے ہمارا روز گار چھین لیا ہے۔ آبی حیات ملاوٹ شدہ پانی میں زندہ رہنے سے مر جانا بہتر سمجھتی ہے۔ شاید زیادہ غیرت مند ہے۔ آبی حیات سے بھری اس جھیل کا پانی ہمیں خوراک اور کثیر تعداد میں آمدن مہیا کرتا تھا۔ اب اس پانی میں بیماری ہے، کر واہٹ ہے، ملاوٹ ہے۔ پاکستانیوں کے مزاج کی طرح۔ یہ پانی دھیرے دھیرے زہر میں بدل گیا ہے۔ موت دیتا ہے وہ بھی تڑپا تڑ پا کر۔کم بارشوں اورصنعتوں کے گندے پانی نے اس جھیل کی آبی حیات کو ہی نہیں بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ ہماری آمدنی اور جھیل کی رونق بھی گھٹا دی ہے۔ یہاں اب مہمان پرندے بھی کم آتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)