مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:91
جوانی آتی ہے
امتحان ہوئے اور میں نویں جماعت میں چڑھ گیا، اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب جسم میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں، میٹھی میٹھی انگڑائیاں آئیں اور جب صنف مخالف کی طرف کچھ زیادہ ہی کشش اور دلچسپی محسوس ہوئی تو یقین ہو گیا کہ جسم میں ہارمونز پوری شد ت سے الٹ پلٹ ہو رہے ہیں اور جوانی ہے کہ بس آیا ہی چاہتی ہے۔
ہلکی سی داڑھی بھی اگ آئی تھی، جو شروع میں تو ایسے ہی آوارہ گرد سے چند بال تھے جن کو قینچی سے کاٹ لیا کرتا تھا، پھر ابا جان نے ایک دن سیفٹی ریزر لا کر دیا اور میں نے باقاعدہ طور پر شیو شروع کر کے اپنے آپ کو بالغوں کی صف میں شامل کر لیا۔ گلے پر حضرت آدمؑ کا سیب اگ آیاتھا۔ آواز میں سے بچپنا ختم ہوا اور بھاری پن آگیا، اپنی یہ نئی آواز کم از کم اس وقت مجھے تو با لکل پسند نہیں آئی اور مجھے اسے اپنانے میں کچھ وقت لگ گیا۔
یہی وہ دن تھے جب چڑھتی جوانی نے کان میں کچھ سرگوشیاں کیں کہ کچھ کرنا چاہئے، ازلی بزدلی کے سبب جب باہر کچھ نہ کر پایا تو ایک دن گھر میں کام کرنے والی جمعدارنی کی اپنی ہم عمر صاحبزادی کو تنہا دیکھ کر اپنے لطیف جذبات اور احساسات کا قصہ سنا ڈالا۔ نہ تو وہ مسکرا ئی اور نہ ہی شرمائی، کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی۔
میں بڑا ہی خوش تھا کہ شاید ہم بہت جلد محبت میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں او ر اس سلسلے میں کامیابی کا پہلا زینہ طے کر لیا گیاہے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا، اگلے ہی دن صبح صبح اس کی ماں آ دھمکی اور اپنا نواں نکور بڑا سا جھاڑو میرے سامنے لہرا کر کہا کہ ”میں بڑے صاحب کو تو تمہاری شکایت نہیں کروں گی،لیکن اگر تم نے میری چھوکری کو دوبارہ چھیڑا تو یہ جھاڑو تمہاری پتلون میں گھسیڑ کر تمہیں ”مور“ بنا دوں گی۔“ اس نے اشارے سے اپنے مطلوبہ ہدف کی نشاندہی بھی کردی تھی۔
اس غیر متوقع صورت حال کو بھانپ کر میرا تو رنگ ہی فق ہو گیا، میں اس وقت کوئی اور جانور بننے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھا، لہٰذا بھلائی اسی میں جانی کہ اپنے اس یکطرفہ اور ناکام عشق سے فوری طور پر کنارہ کشی اختیار کر لوں۔ پھر میں نے ایسا ہی کیا اور کم از کم اگلے چندبرسوں تک تو کراچی کی ساری خواتین اور لڑکیاں میرے لیے ماں بہن ہی بنی رہیں، اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی رشتہ کبھی ذہن میں آیا ہی نہیں۔
شوق مطالعہ
اس وقت تک میں صرف ابن صفی کے جاسوسی ناول یا بچوں کے لیے چھپنے والی کتابوں میں بادشاہوں اور پریوں کے قصے ہی پڑھا کرتا تھا۔ ایک دفعہ صبح صبح میں باہر لان میں کرسی پر بیٹھا ابن صفی کی عمران سیریز کا ایک جاسوسی ناول بڑے انہماک سے پڑھ رہا تھا کہ اچانک ابا جان بغیر کسی پیشگی اطلاع کے وہاں آگئے، ان کو میرا جاسوسی ناول پڑھنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ میں گھبراہٹ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور جلدی سے ناول نیچے رکھ کر خود اوپر بیٹھ گیا، سوچا انھوں نے دیکھا نہیں ہوگا، لیکن میری خام خیالی تھی۔ ابا جان نے ٹھوس شواہد اکٹھا کرنے کے لیے مجھے کھڑا ہونے کا کہا، اور نیچے سے جاسوسی ناول نکال لیا۔ حیرت انگیز طور پر ان کا مزاج اس دن قدرے بہتر تھا، کچھ نہ کہا اور ناول مجھے واپس دے کر چلے گئے۔ ان کا یہ رویہ میری سمجھ سے بالا تر تھا کیونکہ ماضی میں جب بھی میں اس جرم میں پکڑا گیا تھا تو تھوڑی بہت زبانی جھاڑ پونچھ ضرور ہو جاتی تھی لیکن اس معاملے میں انھوں نے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔
اگلے دن انھوں نے مجھے اردو ڈائجسٹ کا ایک شمارہ لا کر دیا اور کہا کہ یہ نیا رسالہ مارکیٹ میں آیا ہے اس کو پڑھا کرو۔ اس میں تمہیں دنیا جہان کا علم، حتیٰ کہ تمہاری جاسوسی کہانیاں بھی مل جائیں گی۔ سچ کہا تھا انھوں نے۔ اور آج اس بات کو6 دہائیاں گزر چکی ہیں اور اردو ڈائجسٹ اب تک میرا ساتھی ہے اور بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کا ایک بھی شمارہ آج تک اِدھر اُدھر نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ بیرون ملک قیام کے دوران بھی میں کہیں نہ کہیں سے اس کا انتظام کر ہی لیا کرتا تھا۔ میں نے اس خوبصورت رسالے سے بڑا کچھ سیکھا۔غرض یہ کہ اُس وقت کی میری ادبی زندگی میں، جو محض جاسوسی ناول، اور جنوں پریوں کی کہانیوں تک محدود تھی، اب اردو ڈائجسٹ بھی شامل ہو گیا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔